Haqqani
Tuesday, 27 August 2019
آزاد نظم
سوال
سوال کتنے ؟جواب کتنے؟
اگر یہ سونچے ،تو لگ ہی جائیں ،
پتا نہیں ہم کو سال کتنے
سوال یہ ہے ، زندگی ہے کیا شئے:؟
جوات اس کا ،جو جی رہے ہو
سوال یہ ہے ،موت کیا ہے؟
جواب اس کا ، ہے زندگی کی منزل
مگر جو تم میرے دل سے پوچھو،کہ موت کیا ہے؟
تو میں کہونگا، موت ہے ایسی زندگی ہماری
جس میں کوئی سوال نہ ہو
جس میں کوئی کمال نہ ہو
خواہشوں کا نہ ہو کوئی مطلب
جس میں کوئی مثال نہ ہو
جس میں کوئی جستجو نہیں ہو
جس میں کوئی آرزو نہیں ہو
گر نہ ہو دل میں جذبہ عشق
اور منزل اپنے روبرو نہیں ہو
تو موت ہے ایسی زندگی ہماری
اور موت ہے اس کی زندگی بھی
جس کو دل میں ہوں نفرتوں کو بادل
ہوں جس کی آنکھوں میں شعلہ روشن
وہ جانتا ہو ،وہ مانتا ہو
تمام دنیا میں مرنے والے
وہ لوگ جن کا لہو ہے پانی
یا پانی اس سے بھی مہنگا شاید
یہ دیکھ کر گر اس کا دل نہ روئے
ضمیر اس کا نہ اس کو نونچے
نہ اس کی آنکھیں ہوں خوں سے پرنم
تو موت ہے ایسی زندگی ہماری
میں کب تلک تم کو یہ بتاوں؟
کہ موت وہ جو ہے آنے والی
ہو آ رہی ہے
ہو آ رہے گی
مگر یہ کیا ؟ کیا یہ کر رہے ہو؟
موت سے پہلے میری جان ،مر رہے ہو
یہ تم نے جو زندگی ہے پائی
ذرا سی اس کی تو لاج رکھ لو
چلو اب ایسی جگہ چلیں ہم
جہاں سے جنگ اب گزر چکی ہو
جہاں کی ہر شے بکھر چکی ہو
جہاں ستایا گیا ہو ا ک معصوم زندگی کو
جس کی آنکھوں کہ سارے سپنے چرا لئے ہوں
تمہارا مقصد ہے
اس کی آنکھوں میں سپنے لانا
جو اس کی آنکھوں کے کو ٹوٹے خوابوں کو لاچکوگے
تو اس کے ہونٹوں کی ہلکی سی مسکراہٹ
اور اس کی آنکھوں کو آنسئوں کو وہ چند قطرے
اپنی زندگی کو پاک
کرنے کو کافی جانوں
یہ زندگی ہے
یہ بندگی ہے
وہ بندگی ہے،کہ جس کی خاطر تمام تاروں کا جال سا ہے
نجومیوں نے تمام تارے جو پڑھ لئے ہیں
خدا ہے کیا شے؟ اس کے آگے اب بھی یہ اک سوال سا ہے
مگر یہ نعمت تمہیں ملی ہے
کے کہ سکوگے تمام دنیا کے عالموں سے
مندروں مسجد میں جس خدا کی تلاش کرتےہو مل گیا ہے
وہ ایک بچے کی مسکراہٹ میں ہنس رہا ہے۔
انشائیہ بطور فنِ مظاہرہ
انشائیہ بطور فنِ مظاہرہ
اردو ادب میں اپنے
جزبات کا اظہار کرنے کے لیےمختلف صنف موجود ہے۔مصنف اپنے تصور ،تجربات،فکراور دیگر
کیفیات کو بیان کرنے کے لیےادب کی کسی ایک صنف کا انتخاب کرتا ہےوہ نثر بھی ہو
سکتی ہے اور نظم بھی۔ اردو نثر میں داستان سے لیکر ناول ،افسانہ،مضمون جیسی صنف وقت اور ضرورت کے اعتبار سے وجود میں
آتی رہیں اور اپنے قاری کے لئےہم سفر کا کام انجام دیتی رہیں۔آج ہم ایکسویں صدی
میں قدم رکھ چکےہیں یہ وہ دور ہے جہاں مختصر اور مزیدار (شارٹ ایند کرسپ) کو پسند
کیا جاتا ہےاور پوری دنیا چیزوں کو اسی ڈھانچے میں فٹ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
انشائیہ کو ہم ایک ایسی
صنف کے طور پر جانتے ہیں جو اپنے اندر اردو نثر کے تمام رنگ سمیٹے ہوئے ہے یہ مختصر بھی ہے اور مزیدار بھی بہت کم وقت میں
آپ اپنی آنکھوں کے سامنے کی چیزوں میں موجود اتنے رنگوں سے واقف ہو جاتے ہیں جو کوئی اوردوسری صنف آپکو اتنے کم وقت میں
نہیں کرا سکتی ۔بقول وزیر آغا:
"انشائیہ جمالیاتی تسکین، جسمانی لزت اور فکری تسکین
عطا کرتا ہے"
(وزیر آغا:انشائیہ کے خدو خال ، لاہور )
اس قول سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ انشائیہ نہ صرف
اپنے آپ میں ایک مکمل صنف ہے بلکہ وہ ایک وقت میں کئی صنف کی خصوصیت اپنے اندر
شامل کئے ہوئے ہے۔جو مقام اردو شاعری میں غزل کا ہے وہی مقام اردو نثر میں انشائیہ
کا ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور مجھے معلوم ہے کہ جس طرح انشائیہ کے ایک الگ صنف
ہونے پر سوال اٹھائے گئے ہیں ممکن ہے کہ میری اس رائے پر بھی اختلاف ہوں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ کسی بھی چیز کو مان لےنے سے پہلے اسے کئی زاوئے سے
دیکھنا ضروری ہے اور انشائیہ بھی ہمیں ایک عام سی لگنے والی شئے کو الگ زاوئے سے
دیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔وزیر آغا اپنی کتاب انشائیہ کے خدوخال میں لکھتے ہیں:
"انشائیہ ایک نئے زاویہ نگاہ کا نام ہے۔زندگی کو دوسرے
کنارے سے دیکھنے کی ایک روش ہے۔
انشائیہ ایک مثبت طرز کی بغاوت ہے جو شخصیت پر چڑھے ہوئے
زنگ کو اتارتی ہے"
(وزریر آغا ۔انشائیہ کے خدو خال)
انشائیہ نگار کےسامنے یہ چیلینج ہوتا ہے کہ وہ جس موضوع پر
قلم اٹھانا چاہتا ہےاس کی پوشیدہ خوبیوں سے واقف ہو اور اس چیز کو دنیا جس نظریے
سے دیکھتی ہے اس سے مختلف نظریہ اختیار کرےاور ایسی باتیں بتائے جو قاری کے وہم و
گمان میں بھی نہ ہو۔جب وہ اس تحریر کو پڑھے یا سنےتو اسے یہ محسوس ہو کہ اس نے
کبھی اس طرح سے سونچنے کی کوشش نہیں کی، اسے یہ لگے کہ اسنے کچھ نیا سیکھا ہے۔نصیر
احمد خان اپنی کتاب آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ میں لکھتے ہیں۔
"نثر میں انشائیہ ایک واحد صنف ہے جس میں مصنف اپنا دل
و ماغ کھول کر رکھ دیتا ہے"
(نصیر احمد خان:آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ)
انشائیہ ایک وقت کے مختصر سے حصے میں آپکو مختلف کیفیات کی
سیر کراتا ہے۔ایسے وقت میں جبکہ دنیا کا ہر تفریحی شعبہ چیزوں کو ٹھوس اور کومپیکٹ
بنانے میں لگا ہوا ہے اور بے معنی شئے کو بھی وہ معنی خیز بنا کر سجاوٹ کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ہمارےپاس تو انشائیہ کی
شکل میں ان تمام خوبیوں کو اپنے آغوش میں سمیٹے ہوئے موجود ہےجونہ صرف ہمیں الگ
زاویئہ نگاہ دیتا ہے بلکہ ہمارے ذہن کو بھی سونچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ انشائیہ
کے بارے میں شرف الدین ساحل کہتے ہیں۔
"انشائیہ ذہن کی ایک ایسی مفکرانہ رو ہےجو سب کو سمیٹے ہوئے چلتا ہے۔یہ ہنساتا بھی
ہے اور رلاتا بھی سنجیدہ بھی کرتا ہے اور مغموم بھی۔ان سب کے علاوہ طنز بھی کرتا
ہے اور غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے "
(انشائیہ شناسی : محمد اسد اللہ)
میرا مقصد اس بحث میں پڑنا بالکل نہیں ہے کہ انشائیہ کے کیا
معنی ہیں ؟اس کا آغاز سر سید کے دور سے ہوا یا ملا وجہی کے یا یہ آزادی کے بعد کی
ایجاد ہے؟یہ مضمون اور طنزو مزاح سے کن معنوں میں مختلف ہے؟ایک نئی صنف کی کیا
اردو ادب کو ضرورت تھی،؟جو بات انشائیہ میں کہی جاتی ہے کیا وہ کسی دوسری صنف میں
ممکنتھی؟ یا یورپ میں جس صنف نے دم توڑ
دیا تھا کیا اردو مین اسے زندہ کرنا ضروری تھا؟ان تمام باتوں کو درکنار کرتے ہوئے
میری اس بات سے تمام لوگ متفق ہونگے کہ انشائیہ اپنے آپ میں ایک مکمل صنف ہے جس کے
اندر مصنف اپنے جزبات کا اظہار کر رہے ہیں، اب وہ بات کتنی نازک
،اہم،فلسفیانہ،معنی خیزہے اس پر الگ سے بحث ہو سکتی ۔میں اپنے مضمون انشائیہ بطور
فنِ مظاہریعنی (انشائیہ ایز ا پرفورمنگ آرٹ)کے ذریعہ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس
صنف میں وہ تمام خصوصیت موجود ہے جو اسے اسٹیج پر وہی مقبولیت دلاتی جو آج کے دور
میں اسٹینڈ اپ کومیڈی کو حاصل ہے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں کہ یہ
زیادہ کار آمد اور مقبول ہوتی۔کونکہ اس کے اندرنہ صرف آپکو مسکرانے کا موقع ملتا
ہے بلکہ ساتھ ساتھ آپ ان پوشیدہ راز سے واقف ہو پاتے ہیں جو کوئی دوسری چیز آپکو
نہیں کرا سکتی۔
اکیسویں صدی میں تفریح یعنی انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں دیکھا
جائے تو سب سے زیادہ ترقی کومیڈی کی ہوئی
ہے۔میں اس میں پولیٹکل سٹائر اور ڈارک کومیڈی کو شامل نہیں کرتا کیونکہ ان دونو سے آپکو کم سے کم
کچھ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح کے کومیڈی شو یورپ سے لیکر برِصغیر اور ہندوستان میں مقبولِ عام ہیں اگر آپ پورے دن بھی اسے
دیکھتے رہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوگااور لگاتار ایک ہی طرز کی باتوں کو بار بار پیش
کیا جا رہا ہےتو ایسے میں ذہن میں یہ خیال
ضرور اٹھتا ہے کہ انشائیہ اور اردو ادب کی کچھ اورصنف جوتفریح کا بہترین ذریعہ ہیں وہ اسٹیج پر اپنا مقام کیوں نہیں بنا سکیں۔ جب ہم
ڈرامہ کی جانب دیکھتے ہیں جو کہ اسٹیج کی ایک مقبول صنف تھی جسے اب کتابوں کی زینت
بنا دیا گیاہےتو انشائیہ اسٹیج تک کیوں نہیں پہونچا اس بات کا انکشاف ہمارے سامنے ہو جاتا ہےجو کہ
بیسویں صدی کے نصف کی پیداوار ہے اور جس کا اسٹیج سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس مثال موجود نہیں ہے۔ضیا
محی الدین اور انور مقصود جیسے لوگوں نے انشائیہ اور اردو کی دیگر صنف کو اسٹیج تک
پہونچا کر اسے عام لوگوں میں مقبول کیا جو کہ ڈرامہ سے مختلف پیشکش تھی اور اس طرح
کے شو آج بھی عوام میں مقبول ہیں ۔لیکن ہندوستان میں ایسی کو ئی کوشش ہمیں دیکھنے
کو نہیں ملتی۔ حال ہی میں داستان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کہانیا سنے اور
سنانے کا دور ختم ہو چکا ہے بیسویں صدی میں داستان کی روایت دم توڑ چکی تھی اور اس
کے احیائ کا کوئی تصور ہمارے ذہن سے نہیں گزرتا تھا ۔اکیسویں صدی میں محمود فاروقی
اور ان کے ساتھیوں نے داستان گوئی کو دوبارہ زندگی بخشی اور آج بڑی سے بڑی محفل
میں داستان سنی اور سنائی جاتی ہے اور داستان نے ایک بار پھر اپنے ڈوبے ہوئے سورج
کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی نے اس قدر تیز ترقی کی ہے اور اس
کے ساتھ تفریحی ذرائع نے بھی مختلف رنگ اختیار کیا ہےآج محفل ٹیلی ویژن،لیپ ٹاپ
اور موبائل فون کی اسکرین بن چکا ہے۔لوگ پڑھنے سے زیادو دیکھنا اور سننا پسند کرتے
ہیں تو ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اردو ادب کی غیر افسانوی نثر جس میں
انشائیہ ، مضمون، طنزو مزاح شامل ہیں کو اسٹیج کےلائق بنایا جاتا جو تفریح کا
بہترین ذریعہ بھی ہوتی اور لوگوں کو سونچنے ،چیزوں کو نئے زاوئے سے دیکھنے اور
مفکرانہ ذہن تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتیں اور ادب کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا۔اس طرح کی کوشش عوام کو بھونڈے کومیڈی شو کا بدل فراہم کرتی جس کے اندر فحاشی ،عریانی اور بنا سر پیر کی بات کے
علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔میں یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہونگا کہ
اردو پڑھ کر پسند کرنے والوں سے زیادہ
تعداد اردو سن کر پسند کرنے والوں کی ہے
شرط یہ ہے کہ ان تک پہونچا جائےاور اپنی بہترین تحریریں ان تک آ ج کے دور میں رائج
اور پسندیدہ ذرائع کا استعال کرتے ہوئےپہونچائی جائے۔
غزل
اردو ادب کی مقبول صنفِ شاعری ہےاور اس کو پسند کرنے والوں میں غیر اردو والوں کی
تعداد بہت زیادہ ہے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں کہ اگر غزل کو موسیقی
کا ساتھ نہ ملا ہوتا تو وہ اتنی مقبول نہ ہوتی جتنی آج ہے۔اسی طرح میرا یہ ماننا
ہے کہ اگر انشائیہ کو اسٹیج کا ساتھ مل جائے تو یہ نہ صرف اردو پڑھنے اور جاننے
والوں میں مقبول ہوگی بلکہ اسکے چاہنے والوں میں غزل کے چاہنے والوں کی مانند
اضافہ ہوگا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)